The Greatest Guide To quran chapter 8

وفي معنى هذه الآية قد وردت آيات أخرى في القرآن الكريم منها قوله- تعالى- وَلَوْ أَنَّنا نَزَّلْنا إِلَيْهِمُ الْمَلائِكَةَ، وَكَلَّمَهُمُ الْمَوْتى، وَحَشَرْنا عَلَيْهِمْ كُلَّ شَيْءٍ قُبُلًا ما كانُوا لِيُؤْمِنُوا إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ، وَلكِنَّ أَكْثَرَهُمْ يَجْهَلُونَ.

قوانین و مقررات

 اخبارِ احاد کو مشہورو مستفاض احادیث کے مساوی مقام نہ دینے کے کئی اسباب ہیں، جن میں بنیادی سبب یہ ہے کہ اخبارِ احاد کی اسناد میں وہ قوت نہیں ہے جو مشہورومستفاض احادیث کی اسناد میں پائی جاتی ہے، دوسرا سبب یہ ہے کہ مشہورومستفاض احادیث کے متون عام طور پر  خطا و شذوذ سےمحفوظ ہیں، جبکہ اخبار احاد میں خطا و شذوذ کا تناسب بہت زیادہ ہے۔تیسرا سبب یہ ہے کہ مشہورومستفاض احادیث  کے متون عام طور پر حدیث کے قدیم ترین مجموعوں سے نقل ہوتے آئے ہیں، جیسے مصنف عبدالرزاق اور مسند امام احمد جبکہ  بہت سی اخبار احاد  کا قدیم  کتبِ حدیث میں سراغ نہیں ملتا۔چوتھا سبب یہ ہے کہ اخبارِ احاد میں روایت بالمعنی کا غلبہ ہے، جبکہ مشہورومستفاض احادیث میں عام طور پر روایت باللفظ کا رجحان غالب ہے۔

apkpure.com should assessment the safety of one's connection just before proceeding. Ray ID: 73d514f599568ce0

سیدنا رفاعہ بن رافع رضی اللہ عنہ ، جو کہ بیعت ِ عقبہ اور غزوۂ بدر میں شریک ہوئے تھے، سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پاس تھا، کسی نے ان سے کہا: سیدنا زید بن ثابت  رضی اللہ عنہ مسجد میں لوگوں کو اپنی رائے کی روشنی میں اس آدمی کے بارے فتوی دیتے ہیں جو مجامعت کرتا ہے، لیکن اس کو انزال نہیں ہوتا۔ سیدنا عمر  رضی اللہ عنہ نے کہا: انہیں جلدی جلدی میرے پاس لے آؤ، پس وہ ان کو لے آئے، سیدنا عمر ؓ نے کہا: او اپنی جان کے دشمن! کیا تو اس حدتک پہنچ گیا ہے کہ تو نے لوگوں کو مسجد ِ نبوی میں اپنی رائے کی روشنی میں فتویٰ دینا شروع کر دیا ہے؟ انھوں نے کہا: میں نے تو ایسی کوئی کاروائی نہیں کی، البتہ میرے چچوں نے مجھے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ سے بیان کیا ہے۔ سیدنا عمر ؓ نے کہا: کون سے تیرے چچے؟ انھوں نے کہا: سیدنا ابی بن کعب، سیدنا ابو ایوب اور سیدنا رفاعہ بن رافع ‌رضی ‌اللہ ‌عنہم ‌۔ سیدنا عمرؓ نے کہا: یہ نوجوان کیا کہتا ہے؟ میں نے جواباً کہا: جی ہم رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کے عہد میں ایسے ہی کرتے تھے۔ سیدنا عمرؓ نے کہا: تو پھر کیا تم نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ سے اس بارے میں پوچھا تھا؟ میں نے کہا: ہم رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کے زمانے میں ایسے ہی کرتے تھے اور غسل نہیں کرتے تھے۔ پھر انھوں نے لوگوں کو جمع کر کے یہ بات پوچھی، ہوا یوں کہ سب لوگوں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ غسل کا پانی منی کے پانی کے خروج سے ہی استعمال کیا جاتا تھا، ما سوائے دو آدمیوں سیدنا علی علیہ السلام  اور سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ کے، یہ دو کہتے تھے: جب ختنے والی جگہ ختنے والی جگہ کو لگ جاتی ہے تو غسل واجب ہو جاتا ہے۔ سیدنا علی علیہ السلام نے سیدنا عمرؓ سے کہا: اے امیر المؤمنین!

 باوجود اس کے کہ وحی متلو( قرآن ) اور وحی غیر متلو (سنت )  دونوں ہی کلام اللہ ہیں اور دونوں ہی  واجب الاتباع ہیں، مگر نبی ﷺ نے دونوں قسم کی وحی کے ساتھ ایک جیسا برتاؤ نہیں کیا۔ قرآن کی حفاظت حفظ کے ساتھ ساتھ کتابت کے ذریعے بھی کرائی، مگر سنت کو صرف حافظے اور تعامل تک محدود کردیا۔

البغوى : وَلَوْ نَزَّلْنَا عَلَيْكَ كِتَابًا فِي قِرْطَاسٍ فَلَمَسُوهُ بِأَيْدِيهِمْ لَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِنْ هَٰذَا إِلَّا سِحْرٌ مُّبِينٌ

Marines are then furnished regional and cultural written content that shows these principles and competencies making sure that Marines can apply and replicate on them in certain context. The rationale for Marines staying assigned a area is that it elevates the Maritime Corps’ understanding of many areas of the globe, not merely Those people the Corps routinely engages, so as to heighten preparedness for your unexpected.

قال أبو جعفر: وأولى القولين في ذلك بالصواب، قولُ ابن عباس, لأن الله جل ثناؤه عمَّ بقوله: (ما كانوا ليؤمنوا)، القوم الذين تقدّم ذكرهم في قوله: وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمَانِهِمْ لَئِنْ جَاءَتْهُمْ آيَةٌ لَيُؤْمِنُنَّ بِهَا .

قرآن حکیم اول تا آخر قطعی الثبوت ہے، اس کی کسی ایک آیت تو کیا ایک لفظ کے بارے میں بھی یہ شبہہ لاحق نہیں ہوتا کہ یہ واقعتاً کلام اللہ ہے یا نہیں۔ دوسری طرف سنت کا معاملہ ایسا نہیں ہے۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے براہِ راست نبی ﷺ سے کسبِ فیض کیا ہے مگر اس کے باوجود سنتِ رسول ﷺ کے بعض اجزا کی نبی ﷺ کی طرف نسبت میں ان کے ہاں بھی اختلاف پایا جاتا تھا۔ سنت سے ثابت شدہ اکثر احکام سب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں معروف تھے، مگر بعض روایات ایسی بھی تھیں جو چند ایک صحابہ کرام ؓ تک محدود رہی تھیں اور سب صحابہ میں شائع نہیں ہوسکی تھیں۔

എന്നിട്ടും അവരിലേറെപ്പേരും വിവരക്കേട് പറയുകയാണ്.

﴿ مَا كانُوا لِيُؤْمِنُوا إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ ﴾، ذَلِكَ، ﴿ وَلكِنَّ أَكْثَرَهُمْ يَجْهَلُونَ ﴾.

لیکن اس وحی خفی کے باوجود مسواک کو ایسا فرض نہیں سمجھا گیا کہ جسے سر انجام دینا ہر شخص پر لازم ہو۔ البتہ نبی ﷺ کو اس قدر تاکید سے گمان ہونے لگا کہ شاید اسے وحی جلی یعنی  قرآن کے ذریعے فرض ہی کردیا جائے گا۔ یہاں صاف معلوم ہورہا ہے کہ نبی ﷺ نے وحی جلی اور وحی خفی کے حکم میں فرق ملحوظ رکھا ہے۔ حکم  اور درجے کے اعتبار سے دونوں کو یکساں قرار نہیں دیا۔ وحی جلی اور وحی خفی کے درجۂ فضیلت میں فرق کے تو website تقریباً سبھی علما قائل ہیں۔ البتہ ان میں بیان کئے گئے احکام کی شدت میں بھی اکثر علما فرق کرتے ہیں۔ اکثر علما کے نزدیک قرآنی حکم سنت  سے ثابت شدہ حکم سے زیادہ  وزنی ہے۔ اس کی درج ذیل وجوہات ہیں:

تعرّف أكثر على مزايا العضوية وتذكر أن جميع خدماتنا المميزة مجانية! سجل الآن.

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *